تفسير ابن كثير



سورۃ طه

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا[92] أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي[93] قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي[94]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہا اے ہارون! تجھے کس چیز نے روکا، جب تو نے انھیں دیکھا کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں۔ [92] کہ تو میری پیروی نہ کرے؟ تو کیا تو نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟ [93] اس نے کہا اے میری ماں کے بیٹے! نہ میری ڈاڑھی پکڑ اور نہ میرا سر، میں تو اس سے ڈرا کہ تو کہے گا تو نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔ [94]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اے ہارون! انہیں گمراه ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا [92] کہ تو میرے پیچھے نہ آیا۔ کیا تو بھی میرے فرمان کا نافرمان بن بیٹھا [93] ہارون (علیہ السلام) نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑ اور سر کے بال نہ کھینچ، مجھے تو صرف یہ خیال دامن گیر ہوا کہ کہیں آپ یہ (نہ) فرمائیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا [94]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (پھر موسیٰ نے ہارون سے) کہا کہ ہارون جب تم نے ان کو دیکھا تھا کہ گمراہ ہو رہے ہیں تو تم کو کس چیز نے روکا [92] (یعنی) اس بات سے کہ تم میرے پیچھے چلے آؤ۔ بھلا تم نے میرے حکم کے خلاف (کیوں) کیا؟ [93] کہنے لگے کہ بھائی میری ڈاڑھی اور سر (کے بالوں) کو نہ پکڑیئے۔ میں تو اس سے ڈرا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کو ملحوظ نہ رکھا [94]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 92، 93، 94،

کوہ طور سے واپسی اور بنی اسرائیل کی حرکت پہ غصہ ٭٭

موسیٰ علیہ السلام سخت غصے اور پورے غم میں لوٹے تھے۔ تختیاں زمین پردے ماریں اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کی طرف غصے سے بڑھ گئے اور ان کے سر کے بال تھام کر اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ الاعراف کی تفسیر میں گزر چکا ہے اور وہیں وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے کہ سننا دیکھنے کے مطابق نہیں۔ آپ نے اپنے بھائی اور اپنے جانشین کو ملامت کرنی شروع کی کہ اس بت پرستی کے شروع ہوتے ہی تو نے مجھے خبر کیوں نہ کی؟ کیا جو کچھ میں تجھے کہہ گیا تھا، تو بھی اس کا مخالف بن بیٹھا؟ میں تو صاف کہہ گیا تھا کہ میری قوم میں میری جانشینی کر۔ اصلاح کے درپے رہ اور مفسدوں کی نہ مان۔

ہارون علیہ السلام نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اے میرے ماں جائے بھائی! یہ صرف اس لیے (‏‏‏‏کہا) کہ موسیٰ علیہ السلام کو زیادہ رحم اور محبت آئے ورنہ باپ الگ الگ نہ تھے، باپ بھی ایک ہی تھے، دونوں سگے بھائی تھے۔ آپ عذر پیش کرتے ہیں کہ جی میں تو میرے بھی آئی تھی کہ آپ کے پاس آ کر آپ کو اس کی خبر کروں لیکن پھر خیال آیا کہ انہیں تنہا چھوڑنا مناسب نہیں۔ کہیں آپ مجھ پر نہ بگڑ بیٹھیں کہ انہیں تنہا کیوں چھوڑ دیا؟ اور اولاد یعقوب میں یہ جدائی کیوں ڈال دی؟ اور جو میں کہہ گیا تھا، اس کی نگہبانی کیوں نہ کی؟ بات یہ ہے کہ ہارون علیہ السلام میں جہاں اطاعت کا پورا مادہ تھا، وہاں موسیٰ علیہ السلام کی عزت بھی بہت کرتے تھے اور ان کا بہت ہی لحاظ رکھتے تھے۔
5317



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.